vBirdy Logo
vBirdy Logo

دنیا میں ہر سال 17 فیصد خوراک کا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔‏

2019

 میں آنے والی وباء کورونا سے مرنے والوں کی ہر کوئی ہر روز بات کرتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کرونا کی تین سالوں میں اموات کی تعداد صرف 45 لاکھ ہوئی ہے جبکہ ہر سال بھوک کی وجہ سے دنیا میں کئی افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں دنیا بھر میں آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور خوراک کی کمی ہوتی جارہی ہے۔

 اس کے نتیجے میں دنیا میرے ایک اندازے کے مطابق 17 فیصد خوراک کا حصہ صرف دکانوں میں پڑا گل سڑ جاتا جو کہ تقریبا 1 ارب 30 کروڑ ٹن بنتا ہے یہ خوراک کسی کے پیٹ میں نہیں جاتی حالانکہ غذائی قلت کی وجہ سے لاکھوں معصوم بچے بیماریوں کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں یہ تو دن کی 17 فیصد خوراک کا حصہ صرف سٹور اور دکانوں میں گل سڑ کر کوڑے دانوں میں چلا جاتا ہے اس کے علاوہ جو کھانا ضائع ہوتا ہے آپ اس کا حساب نہیں لگا سکتے اگر اقوام متحدہ نے 2030 تک خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے کوئی بہتر اقدام نہ کیے تو دنیا میں بڑھتی آبادی میں خوراک کی شدید کمی ہو جائے گی اور لوگ بیماریوں سے سے کم اور بھوک سے زیادہ مرنے لگیں گے۔

 جو اہداف عالمی ادارے دنیا میں ترقی کے لگا کر بیٹھے ہیں وہ کبھی نہیں پورے ہوں گے دنیا میں بنائی جانے والی خوراک کا تقریبا ایک تہائی حصہ صرف اس لئے ضائع کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ لوگ وہ خریدتے ہی نہیں ہیں بلکہ اگر وہ کوئی نہیں خرید رہا اور وہ پڑے پڑے گل سڑ جائے گا تو ان لوگوں کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو وہ کھانا پہنچایا جائے جو لوگ اس کھانے کو خرید نہیں سکتے اور اپنے بچوں کو بہترین غذا نہیں دے سکیں۔

پوری دنیا میں میں خوراک کا ایک بڑا حصہ موجود ہونے کے باوجود بھی تقریباً 80 کروڑ سے زائد لوگ بھوک کا شکار ہو جاتے ہیں  اور کم سے کم دو ارب لوگوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ جب خوراک ضائع ہوتی ہے تو صرف اور صرف کھانا ضائع نہیں ہوتا بلکہ اس کو تیار کرنے کے لئے لیے جو وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں وہ بھی ضائع ہوتے ہیں جیسے سے بجلی پانی مزدوری اور سرمایا وغیرہ صرف 2020 میں 14 فیصد خوراک کا حصہ کھیتوں سے شہر میں لے جانے میں ہی ضائع ہوگیا یا دنیا بھر میں ہر سال کل تک تقریبا 17 فیصد خوراک ضائع ہو رہی ہے جس سے ہماری بڑھتی ہوئی آبادی دی کو شدید غذائی قلت کی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں  اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم دنیا کو بہتر بنانے کے لئے لیے خوراک کو بچائیں اور ان لوگوں تک پہنچائیں جو لوگ اسے حاصل نہیں کر سکتے ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top