صنعتی انقلاب اور زمین کا ‏خطرناک ‏حد ‏تک ‏بڑھتا ‏ہوا ‏درجہ ‏حرارت

Must read

انسان کی ضروریات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہیں. دنیا اس سے کچھ صدیوں پہلے ایسی نہیں تھی ہر جگہ فیکٹریاں اور صنعتیں نہیں تھی بجلی نہیں تھی. اٹھارویں صدی سے پہلے پوری دنیا ایک الگ طریقے سے جی رہی تھی۔ لیکن اٹھارویں صدی وہ صدی ہے جس نے دنیا کو بدل کے رکھ دیا جب انسان کی ضروریات بڑی تو اس نے اس کا حل ڈھونڈنا شروع کردیا یعنی جو کام پہلے جانور اور انسان کر رہے تھے تو انسان اس کا حل تلاش کیا اور وہ کام مشینوں کے ذریعے ہونا شروع ہوگیا۔

یہ ہمارا صنعتی انقلاب کی طرف پہلا قدم تھا انسان نے مشینوں کو بھاپ کے ذریعے چلانا شروع کیا تو جہاں پر پہلے بہت زیادہ لوگ کام کرتے تھے وہاں ان کا آدھا کام مشینوں نے لیا اس سے کام اور بھی آسان ہوگیا مثال کے طور پر جب ایک کارخانے میں ایک آدمی دن میں پانچ جوتے بناتا تھا وہاں پر اب مشین دن میں کئ ہزار جوتے بنا رہی ہے اور اس دنیا میں ایک نیا دور شروع ہوا لیکن اس دور کے ساتھ ساتھ کچھ خطرناک چیزیں بھی آئیں جو ابھی تو ہمیں نظر نہیں آرہی لیکن آہستہ آہستہ ظاہر ہورہی ہیں۔
اس صنعتی انقلاب سے دنیا ایک دم تیز ہوگئی ہر انسان کی دوسرے انسان کے ساتھ دوڑ لگ گئی ہر طرف پیسے کا راج ہونے لگا لیکن سب سے زیادہ خطرناک ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو خطرے میں ڈال دیا وہ کیسے میں آپ کو بتاتا ہوں۔
جب بھاپ سے فیکٹریاں اور کارخانے لگنے شروع ہوئے تو ہم نے زمین سے نکلنے والی معدنیات استعمال کی یعنی کوئلہ تیل وغیرہ ان معدنیات سے ہم نے بھاپ کو پیدا کیا لیکن ہم نے یہ احتیاط نہیں کی کہ اس کے ساتھ خطرناک دھواں جو ہم فیکٹریوں سے تو باہر نکال رہے ہیں کہ فیکٹری کے اندر لوگوں کو نقصان نہ ہو لیکن جب ہم اسے باہر نکال رہے تھے تو وہ ختم نہیں ہو رہا تھا بلکہ ہماری ہوا میں شامل ہو رہا تھا۔
جب دوسرا اور تیسرا صنعتی انقلاب آیا یعنی ڈیجیٹل  دور جس میں سائنس نے بے پناہ ترقی کی بہت سی چیزیں ایجاد ہو ہوئی سب سے بڑی ایجاد انٹرنیٹ تھی جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا پہلے جو کام گھنٹوں اور دنوں میں ہو رہا تھا اب وہ منٹوں میں ہونے لگا یہ سب بیسویں صدی میں ہوا جب ایک اور بڑی ایجاد جہاز کی ہوئی جس کی مدد سے لوگ سالوں کا سفر گھنٹوں میں کرنے لگے۔
بیسویں صدی میں انسان نے دنیا سے باہر چاند پر قدم رکھا جب سائنس نے ترقی کی تو ہمیں پتہ چلا کہ ہماری دنیا یعنی یہ زمین ہمارے رہنے کے قابل کیسے بنی تو ہم نے اس کے بارے میں جاننا شروع کیا لیکن جب ہمیں یہ پتہ چلا زمین پر یہ جو موسم بدلتے ہیں گرمیاں اور سردیاں آتی ہیں اور سورج کی تپش سے ہمیں جو چیزیں سے بچاتی ہیں وہ ایک غلاف ہے جو زمین کے گرد کچھ گیسوں سے مل کر بنا ہے۔
لیکن ہمیں یہ جاننے میں تھوڑی دیر ہوگئی کیونکہ جب صنعتی انقلاب آیا تو ہر طرف کارخانوں سے دھواں نکلنا شروع ہو گیا جس میں موجود گیسوں نے اس زمین کے گرد غلاف کو اور زیادہ موٹا کر دیا وہ غلاف جسے ہم  ایٹموسفیر بھی کہتے ہیں وہ سورج کی خطرناک شعاعوں کو اندر آنے سے روکتا ہے لیکن اب  اس میں سے زیادہ تر خطرناک شعاعیں ہماری زمین پر پڑتی ہیں اور جب واپس جانے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ اس غلاف سے گزر نہیں پاتی اور بار بار اس سے ٹکرا کر دوبارہ زمین کی طرف آتی ہے
جس سے ہماری زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ جب ہم نے صنعتیں اور کارخانے لگانا شروع کیے تو ہم نے اپنے سب سے بڑے محافظ درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا جو کہ ہماری خطرناک گیسوں کے اخراج کو اپنے اندر جذب کرلیتے اور صاف ہوا دیتے ہیں اب ہم چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف جا رہے ہیں جو کہ سارا ڈیجیٹل اور روبوٹک دور ہے جن مشینوں کو انسان یا کمپیوٹر چلاتا تھا اب وہ خود کام کریں گی اور دنیا ایک دم سے ایک نئے دور کی طرف بڑھ جاۓ گی لیکن ہم سب کو مل کر اس دنیا کو بچانا ہوگا ہم اب دوسرے سیاروں پر زندگی کو تلاش کر رہے ہیں کہ ہم وہاں پر زندہ رہ سکتے ہیں یا نہیں ابھی ہم اس کے بارے میں پتہ لگا رہے ہیں لیکن ہمیں اپنی زمین کو بچانا ہوگا  یہ صرف کسی ایک آدمی یا ملک کے بس کی بات نہیں یہ پوری دنیا کو مل کر کرنا ہوگا اور دنیا اس پر تیزی سے عمل کر رہی ہے۔
دنیا ہر چیز کو بجلی پر چلانے میں لگی ہے تاکہ فضا کم سے کم آلودہ ہوں لیکن یہ کافی نہیں ہے ہمیں اب درختوں کی ضرورت ہے جو ہم نے کاٹے اب ہمیں اس سے کئی زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے پاکستانی حکومت نے اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں بھی اس پر کام ہو رہا ہے لیکن ہمیں اس کو اور زیادہ تیز کرنا ہو گا اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک بہتر دنیا دینا ہوگی گی۔
- Advertisement -