ناکامی اور کامیابی زندگی کے سکے کی دو شکلیں ہیں کبھی آپ کے حصے میں ناکامی آتی ہے کبھی کامیابی لیکن ان دونوں باتوں کو ایک جیسا نہیں سمجھا جاتا آج کی اس تیز رفتار زندگی میں ہر شخص پر بس جیتنے کا بھوت سوار ہے کامیابی وہ وٹامن ہے جس کی زیادہ مقدار سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے کامیاب ہونے والا لوگوں کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے سائنس، کاروبار، سیاست، مہم جوئی سے لیکر کرکٹ کے میدان تک ہر جگہ کامیاب ہونے والے کو پوجا جاتا ہے اس پر کتابیں لکھی جاتی ہیں انٹرویوز کیے جاتے ہیں آٹوگراف لیے جاتے ہیں تصاویر کھینچی جاتی ہیں اسے داد و تحسین کے ہاروں سے لاد دیا جاتا ہے اسی لمحے ناکام ہونے والا کسی کونے میں موجود منہ چھپائے اپنے آنسو پینے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ناکامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لاوارث بچے کی طرح کوئی بھی اس کی مالکیت کا دعویدار نہیں بنتا ناکام شخص دو طرح کی اذیت برداشت کرتا ہے ایک اس کی جسمانی اور ذہنی تگ و دو رائیگاں جا تی ہے اور دوسری یہ کہ لوگوں کی نظروں میں اپنے مقام سے گر جاتا ہے اس کے سامنے اسکے حریف کو کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور ہجوم در ہجوم اس کے پیچھے بھاگتے ہیں، ناکام شخص کی طرف اشارے کیے جاتے ہیں، فقرے کسے جاتے ہیں، انگلیاں اٹھائیں جاتی ہیں اور کبھی کبھی سرے مالٹوں کی بارش بھی ہوتی ہے ناکامی کے صدمے سے ٹوٹا ہوا شخص ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا ہے لیکن کیا ناکام واقعی اچھوت ہوتا ہے؟ ناکام ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن انسان کو ناکامی سے نمٹنے کا فن سیکھنے کی ضرورت ہے حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ یہ بات مان چکے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی شخص ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ بھی کبھی نہ کبھی ناکام ہوں گے اگر آپ نے اپنی زندگی میں ناکامی کی گنجائش نہ رکھی تو ناکام ہونے کی صورت میں آپ بالکل ٹوٹ پھوٹ جائیں گے ویسے بھی ناکامی اتنی نفرت انگیز شے نہیں ہے ناکامی کوئ وجود نہیں رکھتی دنیا کے عظیم ترین سائنسدان آئن سٹائن نے مسکراتے ہوئے کہا تھا
ناکامی سے ڈرنا نہیں بلکہ سیکھنا چاہیے۔
کیا آپ بھی ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور ناکامی سے
ڈرتے ہیں۔
“ناکامی سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ کوئی کام نہیں “
حالانکہ منطقی اعتبار سے یہ بات غلط ہے ناکامی میں کام ضرور ہوتا ہے لیکن وہ ایک خاص شرح سے ہوتا ہے مثلا اگر کسی امتحان میں پاس ہونے کے لیے 50 فیصد نمبر لینا ضروری ہے تو دس فیصد، بیس فیصد یا 45 فیصد نمبر لینے والا طالبعلم نے کچھ نہ کچھ حاصل ضرور کیا ہے ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پچاس فیصد سے زیادہ زیادہ نمبر لینے والا طالبعلم زیادہ کامیاب ہوا ہے اور سفر سے انچاس فیصد نمبر لینے والا طالبعلم اس کی نسبت کم کامیاب ہوا ہے مکمل کامیابی کوئی وجود نہیں رکھتی آپ کم کامیاب ہوتے ہیں یا زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اگر آپ کامیاب ہو جاتے ہیں کسی بھی امتحان میں میں تو یہ ہمیشہ کامیابی ہی رہے گی۔
امریکہ کے صدر “جارج واشنگٹن” نے کہا تھا
“ناکامی وہ راستہ ہے جس سے اگلی بار آپ بچ کر آپ کامیابی کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں اگر آپ ناکامی کے راستے سے گزریں گے نہیں تو اس سے بچ کیسے سکیں گے”
شاید یہی بات دنیا کے عظیم ترین موجد ایڈیسن کی سمجھ میں آگئی تھی۔ایڈیسن نے بلب ایجاد کرنے کے لیے 9999 تجربات کیے تھے جب وہ اپنا دس ہزارواں تجربہ کرنے لگا تو اس کے اسسٹنٹ نے بولا اب کوئی امید نہیں ہے ہم ناکام ہو چکے ہیں نہیں نہیں تم غلط سمجھے ہو……سن ہوتے ہوئے اس اب کے باوجود اینڈ ایڈیسن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ہم ناکام نہیں ہوئے ہم بلب بنانے کے 9999 طریقے معلوم ہو چکے ہیں گویا ہمیں پتہ چل چکا ہے کہ ان طریقوں پر عمل کرنے سے بلب نہیں بن سکتا اگلی دفعہ ایک نیا طریقہ دریافت کر کے بلب بنانا ہو گا اگلے تجربے میں ایڈیسن بلب بنانے میں کامیاب ہوگیا۔
بہت سے لوگ ناکامی کے خوف سے کام کو شروع ہی نہیں کرتے حالانکہ ناکامی سے اگر انسان سبق سیکھ لے اور جو غلطیاں اس نے کی ہیں ان کو آگے نہ دہرائے تو وہ زندگی میں زیادہ بہتر طریقے سے کامیاب ہو سکتا ہے.
اگر آپ زندگی میں کبھی ناکام ہوئے ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں انہیں کے ناکام ہونے کے مواقع ہوتے ہیں اور جو لوگ گھر میں بیٹھے کسی قسم کی کوشش نہیں کرتے ظاہر ہے وہ ناکام بھی نہیں ہوتے مگر حقیقتاً وہ کبھی کامیاب بھی نہیں ہوتے ہیں۔
نوٹ!
یہ صرف میرے اپنے خیالات ہیں آپ ان سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔