پاکستان کو اللہ تعالی نے بہت خوبصورتی سے نوازا ہے ہر طرح کے موسم بھی دیے صحرا برفانی پہاڑ اور خوبصورت وادیوں سے بھی نوازا حکومت پاکستان کی طرف سے بھی سیاحت پر بہت تیزی سے کام کیا جا رہا ہے جہاں ہمارے پاس اتنے خوبصورت مقامات ہیں وہاں ان کی حفاظت بھی کرنی ہے تاکہ ان کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا جائے آج میں آپ کو چند سیاحتی مقامات کے بارے میں بتاؤں گا جہاں آپ کو ضرور جانا چاہیے۔
پیر چھتل نورانی
یہ علاقہ بلوچستان میں واقع ہے جب آپ اس جگہ کو دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ آپ کسی اور دنیا میں آگئے ہیں بلوچستان کے مشہور علاقے جھل مگسی میں کھجوروں کا ایک باغ بھی ہے جو پیر چھتل نورانی کے نام سے مشہور ہے کیرتھر پہاڑی سلسلے کے ساتھ موجود اس علاقے میں چشمہ بھی موجود ہے جو کہ کئی صدیوں سے یہاں بہ رہا ہےاس چشمے میں نہایت خوبصورت مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں یہ علاقہ کوئٹہ سے تقریبا 235 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہاں تک ایک ہائی وے بنائی گئی ہے تاکہ سفر میں آسانی ہو اس لیے اب یہاں کافی زیادہ سیاح آتے ہیں
قلعہ رانی کوٹ
اگر اچھا سیاحتی مقام ہونے کے ساتھ ساتھ کوئی جگہ اپنے اندر تاریخ کو بھی سمیٹے ہوئے ہو تو اس جگہ کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے اس کے ساتھ تاریخی مقام کی بات کی جائے تو قلعہ رانی کوٹ ایک ایسی ہی تاریخی جگہ ہے جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تاریخ بھی رکھتی ہے یہ قلعہ پہاڑوں کے درمیان میں موجود ہے دنیا بھر سے آنے والے آثار قدیمہ کے ماہر اس قلعے کو دیکھتے ہیں اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کس کے دفاع کے لئے اور کس سے دفاع کے لیے بنایا گیا تھا آپ کو یہ جان کر ضرور حیرت ہوگی کہ یہ قلعہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے جو کہ 32 کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے اس قلعے کو تین اطراف سے دیواروں اور ایک طرف سے پتھریلے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے اس کی دیوار کو دیوار سندھ بھی کہا جاتا ہے یہاں پر پانی کا ذریعہ ایک چشمہ ہے جو قلعے سے نکلتا ہے اور اردگرد کے علاقوں کو سیراب کرتا ہے۔
گوجل ویلی
یہ وادی گلگت بلتستان میں موجود ہے قدرتی حسن سے مالا مال یہ وادی سطح سمندر سے پندرہ ہزار چار سو کلومیٹر کی بلندی پر واقع ہے اس علاقے کی سب سے خاص بات یہ ہے ایک طرف سے یہ چین کے بارڈر کو ملاتا ہے اور دوسری طرف افغانستان کی سرحد کو یہاں سے پاکستان کی سرزمین کا آغاز ہوتا ہے پاکستان اور چین کو ملانے والی ہائی وے بھی اس وادی سے ہو کر گزرتی ہیں 1974 سے پہلے گوجل ہزارہ اسٹیٹ کا حصہ تھا اس پر میر ہنزہ کی حکومت ہوا کرتی تھی گوجل ہے تو برف پوش چوٹیوں سے گھرا ہوا جہاں دور دور تک آپ کو کوئی اور انسان نظر نہیں آتا مگر اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت کافی زیادہ ہے صرف یہ وادی ہی خوبصورت نہیں بلکہ یہاں کے رہنے والے لوگ بھی بہت خوبصورت ہیں اور کھلے دل کے مالک ہیں یہاں کالے رنگ کے پانی کی ایک جھیل بھی ہے یہ علاقہ پچھلے کچھ سالوں میں دہشت گردی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے اب یہ علاقہ پرامن ہے اور آہستہ آہستہ سیاح اپنا رخ اس علاقے کی طرف کر رہے ہیں۔
گانچی
گانچی گلگت بلتستان میں واقع ہے یہ علاقہ پیلے رنگ کے پاپولر کے خوبصورت درختوں کی سرزمین ہے گانچی کا سب سے مشہور اور تاریخی مقام خپلو ہے یہ اپنے نیلے پانیوں برفانی چوٹیوں اور تاریخی اعتبار سے مشہور ہے یہاں پر کئی صدیوں سے لوگ آباد ہیں یہاں پر ہر سڑک کے دونوں اطراف خوبصورت پاپولر کے درخت لگے ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے یہ علاقہ کئی صدیوں پہلے مکمل طور پر بدمت کے پیروکاروں کی زمین تھی اور آج بھی ان کے مجسمے اور باقیات موجود ہیں 1570 میں سیدناصر الطوسی اور سید علی الطوسی یہاں پر پہنچے اور اس علاقے کو فتح کیا یہاں پر خپلو فورٹ کے نام پر ایک قلعہ بھی ہے جو کہ 1870 میں راجہ دولت علی خان نے یہاں پر بنوایا ان کے خاندان نے یہاں سات سو سال تک حکومت کی آج یہ قلعہ ایک بڑی ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اسٹولا آئیلینڈ
یہ جزیرہ بلوچستان میں واقع ہے جب بھی پاکستان میں قدرتی حسن کی بات ہوگی تو آپ کو بہت سے لوگ مختلف پہاڑی مقامات کا ذکر کرتے ہوئے ملیں گے اسٹولا آئیلینڈ جسے مقامی زبان میں جزیرہ ہفت تلار بھی کہا جاتا ہے یہ جزیرہ پندرہ کلومیٹر لمبا اور 2.3 کلومیٹر چوڑا ہے یہ ابھی تک آباد نہیں ہے اس کی وجہ شہرت یہاں موجود سات مختلف چوٹیاں ہیں اس لیے اسے سات پہاڑوں کا جزیرہ بھی کہا جاتا ہے یہ جزیرہ بلوچستان سے 25 کلو میٹر دور بحیرہ عرب میں واقع ہے آپ ایک کشتی کرایہ پر لے کر یہاں پہنچ سکتے ہیں اس جزیرے کے پانی میں ڈولفن بھی پائی جاتی ہے یہ جزیرہ کتنا پرانا ہے یہ کوئی نہیں جانتا مگر اس کا ذکر کتابوں میں 325 قبل مسیح میں بھی ملتا ہے 1980 میں حکومت پاکستان نے یہاں ایک لائٹ ہاؤس بنایا جو کہ رات میں چلنے والے بحیرہ عرب میں جہازوں کی رہنمائی بھائی کرتا ہے یہاں مسجد بھی بنی ہوئی ہے یہ جزیرہ آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے کیونکہ یہاں پہنچنا آسان نہیں ہے۔