Dollar Rate Increase in Pakistan next 1 year upto 200pkr and Inflation increase upto 40%.
پاکستان میں بڑھتی مہنگائی کو اگر بروقت قابو نہ کیا گیا یا تو اس کے نتائج بہت بھیانک طور پر سامنے آئیں گے جس طرح سے پیٹرول کی قیمتیں اس مہینے بڑھی ہے اس کے ساتھ ساتھ عام ضرورت کی اشیاء جو کہ ہر گھر میں ضروری ہوتی ہے ان کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی اور اس سے متاثر سب سے زیادہ مڈل کلاس طبقہ ہوگا میں آج آپ کو اس تحریر میں بتاؤں گا کہ آئندہ 15 سے 25 مہینوں کے اندر مہنگائی کی شرح 40 فیصد ہونے والی ہے میں آپ کو اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سمجھاؤں گا اور ساتھ ہی ساتھ اس مہنگائی کو قابو کرنے کا طریقہ بھی بتاؤں گا ۔
سب سے پہلے آپ کو انٹرنیشنل لیول سے مہنگاہی سمجھنی ہوگی امریکہ نے پچھلے بارہ مہینوں میں اپنے پاس جو موجود ڈالر ہیں ان کا چالیس فیصد ان کو چھاپنے کی اجازت ہے اس لیے انہوں نے ٹریلین ڈالر اس ٹائم میں چھاپے۔ امریکہ کو 40 فیصد ڈالر چھاپنے کی اجازت ہے لیکن ہمیں نہیں اگر ہم چھاپتے تو ہمارا حال بھی زمبابوے جیسا ہوگا یعنی بے انتہا تک کی انفلیشن ہوگی جو کہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں اور یہ سب کچھ اگلے ڈیڑھ دو سالوں میں ہوگا اس کی وجہ انفلیشن ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ ہمیں اپنے بچوں کو سکول لیول سے ہی سیکھانی چاہیے جو کہ ہم نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم خوشحالی کو دور دور تک محسوس بھی نہیں کر رہے۔
Inflation (انفلیشن)
میں آپ کو مختصر طور پر بتاتا ہوں کہ انفلیشن کیا ہے اگر آپ پندرہ سال پہلے چلے جائیں اور فرض کریں کہ ایک آدمی نے آپ کو پچاس ہزار روپے دے رہا ہے اور ساتھ میں پچاس ہزار کی پراپرٹی دیتا ہے اس وقت ان کی قیمت ایک جیسی تھی آپ اس پراپرٹی پر بنے گھر کو بھی پچاس ہزار کے اندر بنا لیتے آپ ان پیسوں سے بیس بوری سیمنٹ کی دس تھیلے آٹے ک چینی کے 15 تھیلے اور بھی بہت سی چیزیں جو آپ اس پچاس ہزار کیش میں اس وقت خرید سکتے تھے لیکن آج کے دور میں کیا آپ سب کچھ خرید سکتے ہیں اس کا جواب یقینا کیا سو فیصد نہیں ہے لیکن جو پراپرٹی آپ کے دوسرے بھائی کے پاس ہے اس کی قابلیت اتنی ہوگئی کہ وہ سب چیزیں آج کے دور میں بھی اتنی ہی مقدار میں خرید سکتا ہے جتنا کہ وہ آج سے پندرہ سال پہلے خرید سکتا تھا اب کچھ لوگ کہیں گے کہ زیادہ خرید سکتا تھا یا کم خرید سکتا تھا لیکن ہم اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جگہ اچھی تھی یا بری بس ایک جگہ تھی اگر آپ فرض کریں اس جگہ کے بدلے پچاس ہزار کا سونا ہوتا تو بھی آج اس کی قیمت اتنی ہی ہوتی جتنی آج سے پندرہ سال پہلے تھی اب یہ چیز واضح ہوگئی کہ انفلیشن کرنسی کی ویلیو کم کر دیتی ہے۔
پچھلے بارہ مہینوں میں امریکہ نے 40 فیصد ڈالر چھاپے جب کرونا چل رہا تھا اس وقت ڈالر 150 کا تھا اور آج کے دن ڈالر 172 تک چلا گیا ہے اور یہ 200 کراس کرے گا اگلے ایک سال یا ڈیڑھ سال میں یہ اس لیے جائے گا کیونکہ ہم جتنی برآمد کرتے ہیں اس سے زیادہ ہم درآمد کرتے ہیں یعنی ہم بیچتے کم اور خریدتے زیادہ ہیں اور ہم جو کچھ بھی باہر سے خریدتے ہیں وہ ڈالر میں خریدے ہیں اگر ہم سب چیزیں خریدنا بند بھی کر دیں تو بھی ہم ایک چیز سے نہیں بھاگ سکتے اور وہ ہے تیل 50فیصد جو ہم امپورٹ کرتے ہیں وہ ہمارا تیل کے متعلقہ پروڈکٹ ہے اور یہ سب ہم ڈالر میں خریدتے ہیں۔
اس کا حل صرف اور صرف یہی ہے کہ ہمیں اپنی برآمدات کو بڑھانا ہوگا یہ تو سب ہی جانتے ہیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں کرتی یہ بہت لمبے عرصے تک جاری رکھنے کی چیز ہے اگر ہم پلاسٹک کی بنی ایک بوتل بھی مارکیٹ سے خریدتے ہیں تو اس پر لکھا ہوتا ہے میڈ ان چائنہ ہم کم سے کم پلاسٹک سے بنی تمام اشیاء تو اپنے ملک میں بنانا شروع کر دیں ایک دفعہ جب ہم اپنی ضرورت پوری کرلیں گے تو ہم دوسروں کو بیچنا شروع کر دیں گے ہم کم سے کم ملک کے اندر وہ تمام چیزیں بنانا شروع کر دی جو ہماری ضرورت ہے اور اپنی ضروریات کو ملک کے اندر ہی پورا کر لیں تب ہی ہم اپنے ملک کو خوشحال کر سکتے ہیں جہاں تک تیل کی بات ہے تو ہمیں باہر کی تمام کمپنیوں کو اپنے ملک سے تیل نکالنے کی کھلی اجازت دے دینی چاہیے کہ ہماری ضرورت کو پورا کریں کیونکہ پندرہ بیس سال ہیں دنیا اب خود کو آہستہ آہستہ الیکٹرانک یعنی بجلی کی طرف منتقل کر رہی ہے تاکہ زمین کا ماحول صاف ہو سکے تو ہم زیادہ سے زیادہ کمپنیوں پاکستان بلائیں اور ان کو کہیں کہ جتنا تیل نکال سکتے نکالیں ہماری ضرورت کو پورا کرو کرو تاکہ ہم باہر سے تیل منگوانا بند کر دیں یا منگوانے کی مقدار کم ہو جائے۔
ہم الیکٹرونکس چیزیں بھی بہت بڑی مقدار میں باہر سے منگواتے ہیں جس میں سب سے زیادہ موبائل فون ہے لیکن اب پاکستان میں بہت سے منفی پلانٹ لگ رہے ہیں اور جب ہمارے ملک کے میں موبائل کی مقدار پوری ہو جائے گی تو ہم پھر باہر دنیا کو بیچنا شروع کر دیں گے گے جس کی وجہ سے ہمارے پیسے بچیں گے اور باہر سے پیسہ ہمارے ملک میں آئے گا۔
پاکستان کا کل قرضہ تقریبا چالیس ٹریلین جو کہ ہماری جی ڈی پی کا 83 فیصد بنتا ہے ہمارا قرضہ اتنا ہی ہے جتنا کہ ہم پورا سال پیسے اپنے ملک میں خرچ کرتے ہیں بجائے ہمارے پاس پیسہ فالتو ہو ہم الٹا قرض دار ہیں لیکن صرف یہی نہیں ہم اس پیسے پہ ساتھ فیصد سود بھی دیتے ہیں ہماری ایکسپورٹ ٹوٹل جی ڈی پی کا 10 فیصد ہیں یعنی ہم ہر سال صرف اور صرف صرف دس فیصد ہی کما رہے ہیں لیکن اس دس فیصد میں سے بھی 6 فیصد پیسے کا ہم باہر سے خام مال لاتے ہیں تو یہاں پر بھی سب کچھ نکال کر ہمیں صرف اور صرف چار فیصد پیسا بچتا ہے لیکن ہم سات فیصد اپنے قرضوں پر باہر سود کی شکل میں دے رہے ہیں تو پیچھے ہمیں کل ملا کے کے منفی -3 فیصد بچتا ہے اگر ہم پاکستان کی ہسٹری دیکھیں تو ہمارا روپیہ روپے ڈالر کی نسبت ہر سال چار سے پانچ فیصد کم ہوتا جا رہا ہے یعنی ہم ہر سال چار سے پانچ فیصد غریب ہوتے جا رہے ہیں اور یہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر سال ہم اپنی جیب سے منفی تین فیصد باہر دے رہے ہیں پاکستان پچھلے بیس سال سے غریب ہوتا جا رہا ہے اس سب کا حل اور سب کچھ پھر آکے ایکسپورٹ پر ہی آتا ہے ہمارا ملک صرف اور صرف 31 بلین کی ایکسپورٹ کرتا ہے جب کہ میں آپ کو بہت سی ایسی چھوٹے چھوٹے ممالک کا بتا سکتا ہوں جو کہ 200 بلین سے زیادہ کی ایکسپورٹ کرتے ہیں اس کے بارے میں میں ایک علیحدہ کالم لکھوں گا۔
اب سب سے زیادہ ضروری کے ہمیں اپنی ایکسپورٹ بڑھانی ہے اور ایکسپورٹ بڑہانے کے لیے ہمیں ہر گھر میں ایک قابل شخص کو اٹھانا ہے تاکہ وہ اپنے گھروں میں چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں لگا سکے اور بعد میں یہی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں بڑی کارخانوں میں تبدیل ہوجائیں گی یہ جو ہم 31 بلین باہر ایکسپورٹ کرکے اپنے ملک میں لاتے ہیں اس میں سے بھی چالیس فیصد ہمیں بچتا ہے لیکن ہمارے جو بھائی بھائی دوسرے ممالک میں کام کر رہے ہیں وہ ہر سال 40 سے 45 بلین باہر سے بھیجتے ہیں لیکن اگر ہم ان کو اور اور زیادہ قابل اور ہنر مند بنا دیں گے وہ پروگرامرز گیم ڈیویلپر بن کر جائیں گے یا اچھے مینیجر بن کر جائیں گے تو ان کی تنخواہیں یقیناً باہر زیادہ ہوں گی اور پاکستان میں زیادہ پیسے بھیج پائیں گے۔
اس تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ میں کسی حکومت یا کسی پارٹی کو سپورٹ کر رہا ہوں اس کا مقصد آپ کو حقیقت بتانا ہے کہ آپ ہر وقت مہنگائی کا رونا نہ روتے رہے یہ ہمارے قابو میں نہیں ہیں اب آپ بولیں گے کہ چینی یا آٹا ہمارے ملک میں بنتا ہے لیکن جو مزدور کام کرتے ہیں ان کو اپنی تنخواہ چاہیے ہوتی ہیں اور ہر سال ان میں اضافہ بھی ہوتا ہے ان فیکٹریوں کی گاڑیاں اور وہ تمام فیکٹریاں جو بجلی پر چلتی ہیں ان کا تیل باہر سے آتا ہے اس کا صرف اور صرف یہی متبادل ہے کہ ہم اپنا 25 فیصد تیل خود نکالتے ہیں تو اس کو ففٹی پرسنٹ لے آئیں یا اس سے بھی زیادہ کر دیں کیونکہ آنے والی بیس تیس سالوں میں تیل کی ویلیو ختم ہو جائے گی پھر ہماری زمین میں جتنا بھی تیل ہو وہ ہمارے کسی کام کا نہیں ہوگا حکومت سے یہ درخواست ہے کہ جتنی کمپنیاں پاکستان میں آ سکتی ہیں لے آؤ جتنا تیل نکال سکتے ہیں نکالیں کم سے کم ہماری تو ضرورت پوری ہو جائے تاکہ ہمارا جو ففٹی پرسنٹ باہر جا رہا ہے وہ کم ہو جائے بجلی تو ویسے بھی ہم خود پیدا کر سکتے ہیں اپنے چشموں سے ڈیم سے اس طرح سے ہم اپنی مہنگائی کو کنٹرول کر سکتے ہیں ۔