آج کی جو ہماری تحریر ہے وہ کمیونیکیشن سکلز یعنی بات چیت کرنے کے طریقے کے متعلق ہے آپ دنیا میں جہاں بھی چلے جائیں اگر آپ سامنے والے کے ساتھ بااعتماد طور پر بات چیت نہیں کر سکتے تو آپ کبھی بھی نہ ہی کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی زندگی میں زیادہ اچھے مواقع پیدا کر سکتے ہیں بہت سے لوگ جو سخت مزاج ہوتے ہیں انہیں زندگی کی سختیوں نے سخت بنا دیا ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہمارے پاس پیسہ آجائے گا جب ایک آرام دہ زندگی گزارنا شروع کر دوں گا تب میں سب کے ساتھ گھل مل جاؤں گا سب کے ساتھ ہنسوں کا لیکن جب اس نے اپنے اندر کے وہ جذبات دبا کر ختم کر دیے تو وہ کبھی بھی یہ نہیں کر پائے گا دراصل آپ کے جذبات آپ کے احساسات کے ذریعہ لوگوں کو بتانا ہی کمیونیکیشن ہے آپ کی جذبات کا سب سے گہرا تعلق آپ کی آنکھوں سے ہے۔
How to improve your communication skills and self confidence | خود اعتمادی اور بات چیت کرنے کا ہنر
آپ غصے میں ہو یا خوش ہو یا آپ گھبرائے ہوئی ہوں آپ کی آنکھیں سب بیان کر دیتی ہیں تو کم سے کم ہر ایک کے ساتھ مسکرا کر بات کریں یہ آپ کے اچھے اخلاق کی ایک نشانی ہوگی یہ جو پولیس والے ہوتے ہیں یہ آپ کے کچھ بولے بغیر ہی آپ کے جسم کی حرکت آپ کے چہرے اور آنکھوں کی حرکت سے ہی جان لیتے ہیں کہ یہ بندہ مشکوک ہے یا نہیں تو میری آپ سے گزارش ہے جب بھی بات کریں تو ایسے بات کریں کہ سامنے والے کو لگے کہ اس سے زیادہ اچھے اخلاق والا بندہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔
ہمارے جسم میں سب سے زیادہ ہڈیاں ہمارے پاؤں میں ہے اور سب سے زیادہ پٹھے ہمارے چہرے میں ہیں اس میں سب سے زیادہ آپ کے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے والی چیز آپ کا چہرہ ہے اس کے بعد آپ کا جسم اور آخر میں زبان ہے کہ آپ کا انداز بیان کیسا ہے حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ زبان یعنی بولنے کا ہماری کمیونیکیشن سے سب سے زیادہ تعلق ہے ایسا نہیں ہے ۔
زبان سے آپ بس الفاظ کہتے ہیں اور اپنے جسم سے اس کا اظہار کرتے ہیں اگر آپ کسی کو غصے والی بات بھی مسکرا کر کہیں گے تو ہو سکتا ہے وہ آپ سے ناراض ہوجائے لیکن آپ کے اخلاق پر کبھی انگلی نہیں اٹھائے گا اس سے خود اعتمادی ظاہر ہوتی ہے جب آپ کسی کے ساتھ مسکرا کر اچھے انداز سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔
ہم پوری زندگی بولتے ہیں پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک اگر آپ بول نہیں سکتے ہو تب بھی آپ اور ہم اشارے کے ذریعے بھی باتیں کر کے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ ہمیں یہ چیز ضرورت ہے اب بات کرنے کا انداز کوئی بھی اپنی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا کہ کیسے بات چیت کرنی ہے کہ یہ ہنر ہے جو آپ کو آپ کے ارد گرد کے ماحول سے یا پھر آپ کو سیکھنے سے آتا ہے جس کا بھی انداز بیاں اچھا ہے یا تو اس کو ماحول ایسا ملا یا پھر اس نے سیکھا کہ کیسے اپنے بات کرنے کے انداز سے لوگوں کے دل جیتے جائیں ۔
قاسم علی شاہ جو کہ پاکستان میں ایک موٹیویشنل سپیکر کے طور پر جانے جاتے ہیں وہ اپنی ایک ویڈیو میں بتاتے تھے کہ انہوں نے کبھی بھی کسی تقریر میں حصہ نہیں لیا کبھی بھی اپنے گھر والوں یا دوستوں کے علاوہ کسی سے زیادہ بات نہیں کی وہ کہتے تھے کہ ان میں خود اعتمادی کی بہت زیادہ کمی تھی پھر انہوں نے ایک بچے کو ٹیوشن پڑھانا شروع کیا اور پھر آہستہ آہستہ انھوں نے دوسروں کے سامنے بولنے کے خوف کو ختم کیا اور آج پاکستان میں انہیں کروڑوں لوگ جانتے اور سنتے ہیں میں خود ایک سرکاری کالج میں ایک کام کے سلسلے میں گیا اور وہاں گیلری میں بڑے بڑے سائنسدانوں عالموں مفکروں اور ہمارے ملک کی نامور شخصیات کی تصاویر کے ساتھ ان لوگوں کا کہا ایک سنہری جملہ لکھا ہوا تھا تو وہاں پر ان سب کے درمیان قاسم علی شاہ کی بھی تصویر لگی ہوئی تھی اور لکھا تھا
تعلیم کا سکوپ نہیں ہوتا بلکہ ٹیلنٹ کا سکوپ ہوتا ہے
کوئ بھی انسان شروع سے ہی اپنے ہنر میں اچھا نہیں ہوتا ہر ایک کہیں نہ کہیں سے شروع کرتا ہے بہت سی غلطیاں کرتا ہے اور پھر ان غلطیوں سے سیکھ کر ایک اچھا انسان بنتا ہے ایک تقریر کرنے والا پہلے دن ہی اچھی تقریر نہیں کرتا دنیا کے بہترین لکھنے والے کا پہلا افسانہ بہترین نہیں
ہوگا وہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ہنر کو نکھارتے ہیں محنت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں اب ضروری نہیں کہ تقریر کرنے والے کو ہی اپنی کمیونیکیشن پر محنت اور توجہ دینی چاہیے بات چیت کرنے کا ہنر تو زندگی کے ہر موڑ پر کام آتا ہے اگر آپ انٹرویو دینے جائیں اور آپ ٹاپر ہوں لیکن آپ کو بات کرنے کا انداز نہیں آتا تو وہ آپ سے معذرت کر لیں گے اور کسی اور کو اس نوکری پر رکھ لیں گے ۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر آپ کو بات کرنی آتی ہے تو آپ سامنے والے کا موڈ تبدیل کر سکتے ہیں آپ ان کو رولا بھی سکتے ہیں اور ہنسا بھی سکتے ہیں جب آپ کے پاس ایسا ہتھیار ہو تو کون آپ سے دوستی نہیں کرنا چاہے گا جب آپ کو کمیونیکیشن پر عبور ہوگا تو آپ اپنی بات کو مختصر بھی کرسکتے ہیں اور لمبی بھی کر سکتے ہیں یہ جو ہمارے علمائے دین ہیں اب یہ بھی پیدائشی طور پر اتنے بڑے عالم بن کر تو نہیں آئے انہیں سکھایا گیا اور پھر جب وہ سیکھ گئے تو وہ اپنی باتوں سے اپنے انداز بیان سے لوگوں کے دل بدل دیتے ہیں ۔
طارق جمیل ہمارے پاس سب سے بڑی مثال ہیں انہوں نے لوگوں کے دلوں میں اپنا گھر بنا لیا ہے پھر آپ اپنی بات چیت کرنے کے انداز کے ساتھ اپنی اندر خود اعتمادی پیدا کریں
کیونکہ کمیونیکیشن اور خود اعتمادی کا گہرا تعلق ہے ہر انسان ایک دوسرے سے منفرد ہے اس وقت دنیا میں سات ارب سے زیادہ لوگ موجود ہیں اور ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے ہر انسان اپنی ایک منفرد پہچان اور خاص صلاحیتیں رکھتا ہے اگر انسان اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلے میں کم تر سمجھے اور اس کو اپنے منفرد ہونے کا یقین نہ ہو اور سمجھے کہ وہ نالائق ہے اس میں کوئی صلاحیت نہیں تو وہ زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔
ہم میں سے اکثر افراد ایسے لوگوں سے واقف ہوں گے جو خود اعتمادی کی کمی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ لوگ مشکل کام کرنے سے گھبراتے ہیں اور اگر وہ کام کرنا ممکن ہو تب بھی اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اپنے دوستوں اور خود سے وہ کوشش نہ کرنے کے کئ بہانے بناتے ہیں بعض اوقات یہ شرمیلےپن اور چھپنے کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ اب انھوں نے اپنے ذہن میں یہ بات بٹھائی ہوتی ہے کہ ان کے مقابلے میں دوسروں میں وہ کام کرنے کی زیادہ صلاحیت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسروں کی طرح نہیں ہیں ۔
جن لوگوں میں خود اعتمادی کی کمی ہے انہیں چاہیے کہ وہ خود پر اعتماد اور بھروسہ کرنا شروع کر دیں یہ یقین کریں کہ کچھ چیزیں یا کام ایسے ہیں جو وہ بہت اچھی طرح کر سکتے ہیں اگر ناکامی ہو اور حوصلہ پست ہونے لگے تب بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور اسے ہر صورت میں کام کے ہر مرحلے کو کامیابی سے مکمل کرنا چاہیے خواہ وہ کتنا مشکل ہی کیوں نہ ہو چھوٹے کاموں میں کامیابی سے مشکل کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے ۔
آپ کے اندر یہ دونوں سکلز آگئی تو آپ دنیا میں ہر چیز حاصل کرسکو گے آپ کے اندر خود اعتمادی ہوگی اور بات کرنے کا طریقہ پتہ ہوگا تو آپ دنیا میں اپنی بات منوا سکوگے ان کے دلوں میں اپنا گھر بنا لو گے اور اس کے ساتھ جب آپ دنیا کے ساتھ اتنے اچھے ہوں گے تو سوچیں اپنے گھر والوں کے ساتھ کتنے اچھے ہوں گے آپ کی زندگی گھر کے اندر اور گھر سے باہر بالکل منفرد اور پہلے سے زیادہ خوشگوار ہوجائے گی ۔