اللہ پاک نے یہ کائنات بنائی اور اس کے ایک معمولی سے حصے کا قیام انسان کو بخشا اللہ تعالی اس زمین پر ایک ایسا نظام چاہتے ہیں یہاں ہر انسان ایک دوسرے سے جڑا ہو اور مددگار ہو۔
اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔
.۔جب کسی انسان سے ملو تو اسے سلام کرو
.۔جب کوئی انسان بیمار ہو جائے تو اس عیادت کرو
.۔اگر وہ فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ میں شرکت کرو
.۔اگر وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو
۔اگر اس کو چھینک آئے اور وہ الحمدللہ کہے تو تم جواب میں یرحمک اللہ کہو۔
.۔ہر مسلمان کا حق ہے کہ اس کی خیرخواہی کی جاۓ
اب یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان سے پہلے انبیاء کو اس لیے بھیجا تھا تاکہ ایک بہترین معاشرہ معرض وجود میں آسکے زندگی گزارنے کے رہنما اصول تو بہت سارے ہیں ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر کرے گے۔
پہلا اصول ہر حالت میں اللہ سے ڈرتے رہیں کفار کےلئے لفظ اللہ صافی ہو گا مگر جس طاقت کو وہ قوی ترین سمجھتے ہیں چاہے وہ قانون یا کوئی بت یا آگ تو وہ بھی اس اصول پر کاربند رہیں اور اس چیز کو جس کو وہ بہترین طاقت مانتے ہیں اس کا احترام اور ڈر اس کے دل کے اندر رکھیں اور جو بھی چیزیں انہوں نے بتائی ہیں ان پر عمل کرے۔
کسی بھی مذہب میں اس بات کا کسی کو درس نہیں دیا جاتا جس سے کسی انسان کو تکلیف پہنچے اس لیے اگر وہ اللہ سے ڈرتا رہے گا تو وہ کسی انسان کو تکلیف نہیں پہنچاۓ گا مسلمان کے لیے تو آسان ہے کیونکہ اللہ تعالی نے تمام اصول و ضوابط پر مبنی کتاب بھیجی ہے جیسے ان قرآن مجید کہتے ہیں اور اس کتاب کے لئے انہوں نے اپنے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا یہ ان کے وہ نازل ہوئی ہوئی اور انہوں نے کھول کھول کر سب کو تفصیل سے لوگوں کو سمجھا دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی کہا اور کیا وہ اللہ کی مرضی سے کیا۔
قرآن کہتا ہے۔
نہ بٹکا کا ہے تمہارا رفیق اور نہ بہکا اور نہیں تولتا ہے وہ اپنی خواہش نفس سے (سورہ النجمر3۔4)
اللہ کے نبی نے فرمایا
تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔
تو اس کو دوسرا اصول سمجھا جائے کہ دنیا میں ایسا رہنا ہے کہ ہر وقت دوسروں کے لئے مددگار اور نفع پہنچانے والا ہوں تاکہ بقاۓ باہمی اور نفع پہنچانے کے لیے وہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکے اور اس پر مزید غور کریں تو یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہترین مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں کو یا انسانوں کو نفع پہنچائے نہیں کہا بلکہ کسی بھی انسان کے بہترین ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے۔
مساجد تنگ کرو اور راستے کھلے کرو ظاہر ہے مساجد میں صرف مسلمان ہی نماز پڑھیں گے لیکن راستے میں ہندو عیسائی یہودی اور کی قسم کے جانور گزریں گے۔
ایک اور اصول بلکہ بنیادی کا اصول کہا جائے تو بہتر ہو گا وہ یہ کہ انسان صبر کرے اس زندگی میں انسان کو بہت سے مسائل اور حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت سے معاملات کا حل انسان کے پاس نہیں ہوتا اسی لیے صبر کرنا انسان کو ان معاملات سے نکالنے میں مدد کرتا ہے۔
اللہ نے قرآن کریم میں بیان کیا جس کا مفہوم یہ ہے؛جب انسان کے پاس کسی مسئلے کا حل نہ ہو تو وہ صبر اور نماز کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے۔ سورۃالھارج میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا ہے کہ (اے نبی صبر کرو) اچھا خیر علماء نے صبر کی تین سیڑھیاں بتائی ہے۔ پہلی یہ کہ اللہ کہ منع کئے گئے تمام کاموں سے باز رہیں اور اللہ پاک کے اوامر کو بجا لاۓ اور جو مشکل یا مصیبت اس پر آن پڑی ہے اس کو اچھے طریقے سے برداشت کرے اچھے طریقے سے برداشت کرنے کا مطلب ہے کہ واویلا نہ کرے اس موقع پر آخر سب کو صبر آ ہی جاتا ہے ایک زریں اصول جو اچھی زندگی کو گزارنے میں انسان کا معاون ہے وہ ہے استقامت۔
اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے۔ پاس تم نے عزم کیا اللہ پر توکل رکھو یعنی میں نے کام کا بیڑا اٹھایا ہے اس پر استقامت اختیار کرو۔اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ دنیا میں جن لوگوں نے بھی صبر اور استقامت پر کام لیا وہ آخرکار کامیاب ہوئے۔سب سے بڑی مثال ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کیوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مشکلات اور مسائل کا سامنا کیا اور ہمیشہ صبر کیا اور اپنے مقصد پر اپنی طاقت سے جمے رہے اور ہم ساری کوشش کا نتیجہ جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں اسلام کی بنیاد مضبوط کیں جس پر دین کی مضبوط عمارت کھڑی ہوئی اور جس مضبوط عمارت کا قیام آج چودہ سو سال بعد بھی ہے اس استقامت کی وجہ سے یہ نتائج آئےایک اہم اصول جو کہ اگرچہ بیان کردہ اصولوں سے جڑا ہوا ہےوہ یہ کہ کسی سے کوئی سوال نہ کرے اگر کسی سے آپ نے کوئی چیز مانگنی ہے تو اللہ سے مانگیں کسی انسان سے سوال مت کریں یہ آپ کو مخلوق کی نظر میں بکا کر دے گا اور اپنی قوت تیرا دی صبرواستقامت وغیرہ کو کمزور کر بیٹھیں گے جس سے زندگی گزارنے کا
مقصد آپ کے لیے مشکل ہوتا جائے گا۔
اللہ کے نبی نے فرمایا۔
اگر سوال کرنے والے کو معلوم ہو جائےکہ اس میں اس کے لیے کیا ذلت و رسوائی اور خرابی ہے تو وہ بھی سوال نہیں کرے گا۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سوال کرنا خراشیں ہیں جن سے کوئی شخص اپنے چہرے پر زخمی کرتا ہے پس اسے چاہے کہ اپنے چہرے کو باقی رکھے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ سوال کرنے کو اپنے اوپر حرام کر دیجئے یہ زندگی کا سنہرا اصول ہے مثبت سوچ ایک ایسا اصول ہے جو ہماری زندگی کوبالکل صراط مستقیم پر رکھتا ہے۔مثبت سوچ دراصل طے کرتی ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں مطلب صاف ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں مثبت کام کرنے ہیں منفی نہیں ایسے کام جن سے کسی کو کوئی فائدہ ہوتا ہوں منفی اور جن سے کسی کو کوئی نقصان ہوتا ہوں وہ نہیں کرنی کسی کو مارنا گالی دینا چوری کرنا چیخنا چلانا اور کسی کو دھوکا دینا یہ سب منفی کام اور منفی سوچیں ہیں لوگوں سے شفقت اور محبت سے پیش آنا امانتداری کرنا اور ان کی خدمت کرنا اور سچ بولنا یہ سب مثبت کام ہےان کو کرنا اور منفی کاموں سے دور رہنا زندگی کا ایک سنہری اصول ہے۔
اس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ہمیںں اللہ پر پختہ ایمان رکھنا ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں اللہ پر ہی توکل رکھنا ہےاور زندگی کے معاملے میں مثبت سوچوں پر عمل کرنا ہےاور منفی کاموں سے بچنا ہے مثبت کاموں میں صبر و استقامت سہرفہرست ہے۔