Pakistan Government want to use Electronic voting machines in General election but election commission and opposition party deny it.
ملک پاکستان اگر 2050 میں بھی پہنچ جائے تو اس کا انتخابی نظام ہمیشہ فرسودہ ہی رہے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی نہیں ہے جو کہ نون لیگ بھی کہتی ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قانون کی بالادستی کیسے ہو سکتی ہے جب آپ کے جیسے سزا یافتہ جو اپنی آمدنی کے بارے میں بتا بھی نہیں سکتے اور ریاست کو دھوکا دے کر باہر چلے گئے اور اب جب کہ مقررہ وقت کی مدت ختم ہوگئی آپ واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہے عمران خان جو کہ ایک ایسا انتخابی نظام متعارف کروانا چاہتے ہیں ۔
جس میں جو کوئی بھی ہارے وہ اپنی ہار کو تسلیم کرے اور خوشی سے حکومت کا ساتھ دے مختصر یہ کہ دھاندلی کی رٹ ختم ہو جائے اس لیے حکومت آئندہ آنے والے الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم لانا چاہتی ہے اس معاملے میں حکومت اور اپوزیشن تو پہلے ہی گتھم گتھا تھی اب الیکشن کمیشن بھی اس معاملے کو لے کر حکومت کا حریف بن چکا ہے ۔
حکومت ان مشینوں کو استعمال کر کے ووٹ چوری کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتی ہے حکومت کا ان مشینوں کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ یہ مشینیں اس ہاتھ کو کاٹ دیں گی جو ووٹ چوری کرنے میں مہارت رکھتا ہے حکومت اس سے ملک میں سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے جس میں ملک کی ہر سیاسی پارٹی اور ہر شہری ان انتخابات کے عمل کو شفاف قرار دے اور بننے والی حکومت وقت کا ساتھ دے کر ملک کو آگے بڑھانے کے لئے مدد دے لیکن اپوزیشن کا یہ خیال ہے کہ یہ مشینیں حکومت نے تیار کی ہیں اور یہ وہی رزلٹ دیں گی جو حکومت چاہے گی۔
حکومت کے کچھ وزراء اور کچھ صحافیوں نے بھی اس مشین کو چلایا اور عوام کو دکھایا کہ یہ ایک پرانے کلکولیٹر کی طرح ہے نہ تو اسے ہیک کیا جاسکتا ہے اور اگر اس میں ووٹ زیادہ ہو جائے تو اس کا بھی پتہ چل جائے گا کیونکہ باقی تمام طریقہ تو وہی ہوگا صرف اب ٹھپے کے بجائے بٹن دبایا جائے گا اگر ہم ان مشینوں پر لگے اعتراضات کو ایک طرف رکھیں اور اس کے مثبت پہلو کو دیکھیں تو پہلا فائدہ جو کہ سب سے بڑی ہار اور جیت کا مسئلہ بنتا ہے یہ ہے ووٹ کا ضائع ہونا تھوڑی سیاہی کہیں اور لگ جائے تو ووٹ ختم کر دی جاتی تھیں ایک تو ووٹ ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور دوسرا جو ہمارے بھائی بیرون ملک میں ہیں ان کو اپنے ووٹ کا حق مل جائے گا 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس کا سسٹم متعارف کرایا گیا جو کہ ایسا ذلت آمیز تماچہ تھا جو الیکشن کمیشن کو آج بھی محسوس ہو رہا ہے یہی وہ وجہ ہو سکتی ہے کہ الیکشن کمیشن بھی کسی نئے نظام کو کو نہیں لانا چاہتا۔
اپوزیشن کا تو اس سسٹم کے خلاف ہونا مانا جا سکتا ہے کیونکہ حکومت کوئی بھی کام کرے اپوزیشن کی نظر میں وہ بے کار ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اس پر 37 اعتراضات لگا کر اس سسٹم کو مسترد کر دیا ان اعتراضات کا کا کوئی سر پیر ہی نہیں تھا الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ حکومت نے بنائی ہے اس لئے ان پر بھروسہ کرنا مشکل ہے کہ الیکشن کمیشن کو ان مشینوں میں موجود تمام تحفظات دور کرنے چاہیے اور تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کے بعد ان کو استعمال کرنے کا حکم دے لیکن الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پہلے ان کو چھوٹے پیمانے پر استعمال کیا جائے اور پانچ سے آٹھ سالوں کی ٹیسٹنگ کے بعد ان کو جنرل الیکشن میں استعمال کیا جائے۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تو ہمیشہ اختلاف اور جنگ رہتی ہے لیکن الیکشن کمیشن ریاست پاکستان کا ادارہ ہے انہیں حکومت کی اس نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے حکومت کا پورا زور ہے کہ ایسے شفاف الیکشن کروائے جائیں جن کو ہر کوئی مانے لیکن پاکستان میں موجود چند پارٹیاں جو کہ خوشامدیں کر کے حکومت میں آئی ہیں یہ لوگ نہیں چاہتے کہ ان کے جعلی ووٹر جو کہ بھٹو کی طرح غائبانہ طور پر زندہ ہیں اور آج بھی ووٹ ڈالتے ہیں ختم ہو جائیں اگر اب بھی ایک نیا کمپیوٹرائزڈ سسٹم نہیں لایا گیا تو ہمارے ملک میں ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن کے جھگڑے ہی رہیں گے اور کبھی یہ ملک آگے ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوگا۔