اگر ایشیا کے چند ممالک جن میں وطن عزیز پاکستان بھی شامل ہو اور خدانخواستہ وہاں کے ہر شہری کو قانونی طور پر یہ جھوٹ یا رعایت دی جائے کہ کوئی بھی شہری کسی کا بھی قتل کر کے صرف 15 سال قانون کی گرفت میں نہ آئے اور ٹھیک پندرہ سال ہونے پر اپنے آپ کے حوالے کر دیں تو اسے سزا نہیں دی جائے گی اور بالکل اسی طرح کسی چھوٹے یا بڑے ڈاکو یا چور کو بھی چھوٹ دی جائے کہ ڈاکے کی کامیاب واردات کے بعد صرف سات سال تک قانون سے آنکھ مچولی کھیلے اور پولیس کے ہتھے نہ چڑھے تو اس کا بھی معاملہ صاف ہو جائے گا ہوئی رقم بھی انعام کے طور پر اس کی ہو جائے گی تو تصور کیجئے کہ اس قسم کی چھوٹ سے ہمارے ملک میں کیا ردعمل ہوگا میرا خیال ہے کہ ملک کی نصف آبادی مقتول اور قاتل کی ہوگی اور جو یہ نہ ہو گی وہ چور یا ڈاکو ہوگی کیونکہ ہمارے ممالک میں ایسے قوانین کی صدق دل سے پابندی کی جاتی ہے۔
Some strange laws in Japan some time ago |کچھ عرصہ پہلے جاپان میں کچھ عجیب وغریب قوانین۔
Some strange laws in Japan some time ago
اس کے علاوہ ہمارے پولیس کے کام کا بوجھ بھی خاص ہلکا ہو جائے گا ساتھ ہی ان کے وارے نیارے بھی ہو جائیں گے پولیس کا کام بہت ہلکا اور نذرانوں کا بوجھ وزنی ہو جائے گا کیونکہ چشم بددور یہ ہماری پولیس اتنی فرض شناس اور محنتی ہے شاید ہی بنگلہ دیش یا بھارت کی پولیس ان کا مقابلہ کرسکے کیونکہ جتنی ہماری پولیس فرض شناس ہے اتنی ہی مجرم شناس ہے اور اس معاملے میں ان کی کوشش ہوگی کہ محترم مجرم سات یا 15 سال ان کے سامنے نہ آنے پائے کیونکہ پولیس کا ہے فرض مدد ان کی۔
لیکن آپ بھی شش و پنج میں ہونگے کہ بھلا کون سا ایسا ملک ہو سکتا ہے جہاں یہ قانون ہوں کہ اپنے ناپسندیدہ بندے یا بندی کو اگلے جہان روانہ کریں اور خود اسی جہاں میں 15 سال گوشہ نشین رہیں اور پھر سارے گناہ معاف انسان کی زندگی کے پندرہ سال کا عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر جاتا ہے جیسے میری عمر اکیس سال ہو گئی یہ تمام قوانین جاپان میں نافذ العمل ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے یہ قوانین صرف جاپان میں ہی رائج ہیں کیونکہ کسی دانشور نے کہا تھا کہ جیسی روح ویسے فرشتے اسی لئے ایسے قوانین بھی انہی ممالک میں نافذ کیے جاسکتے ہیں جہاں کی عوام بھی حساس اور قوانین کی نزاکت کا ادراک رکھتی ہو انسانی فطری طور پر شریف النفس ہی پیدا ہوتا ہے لیکن جو دنیا میں پرانا اور سینئر ہوتا جاتا ہے شرافت سے پیچھا چھڑانے ہوئے نفس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔
جاپانی قوم کا شمار دنیا بھر میں اپنی شرافت حسن اخلاق اور قانون کی پابندی کرنے والی بہترین قوموں میں ہوتا ہے یہاں کا تقریبا ہر شہری تعلیم یافتہ باشعور امن پسند اور فرض شناس ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے قوانین بھی اس قوم کے مزاج کے عین مطابق بنائے گئے ہیں وقت ضرورت کسی بھی قانون کی تنسیخ یا اس میں ترمیم بھی ہوتی رہتی ہے اور نئے قوانین بھی نافذ ہوتے رہتے ہیں جاپان کے چند قوانین ایسی بھی ہیں جن کا کسی دوسرے ملک میں تصور بھی محال ہے۔
جاپان میں غالباً 2005 تک ایسا قانون بھی تھا جس کے تحت کوئی قاتل کامیاب قتل کی واردات کے بعد صرف پندرہ سال تک قانون کی نظروں سے اوجھل رہے تو اس کے جرم کی کتاب بند کر دی جاتی تھیں اور اسی طرح کوئی ڈاکو ڈاکہ زنی کی کامیاب واردات کے بعد سات سال تک رفو چکر ہو جائے اور قانون سے آنکھ مچولی کھیلتے رہے تو اس کے جرم کی کتاب نہ صرف بند کر دی جاتی ہے بلکہ لوٹی ہوئی رقم بھی اس کی ہو جاتی ہے دو ہزار پانچ سے پندرہ سال کی مدت بڑھا کر 25 سال کردی گئی تھی لیکن اب یہ قانون ختم کر دیا گیا ہے باوجود اتنے نرم قوانین کے بھی جاپان میں ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں جرائم کی شرح بہت کم ہے تاہم کبھی کبھی قتل اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی ہوتی رہتی ہیں اور یہاں کی پولیس فرار ہونے والے ملزمان کو جلد گرفتار کر لیتی ہے لیکن بعض وارداتوں میں مجرم سالوں تک روپوش ہو جاتے ہیں لیکن پولیس مسلسل ان کی تلاش میں رہتی ہے تاہم اگر قاتل اور ڈاکو مقررہ مدت تک گرفتار نہ ہو سکے تو ان کے مقدمے کی کتاب ہمیشہ کے لئے بند کر دی جاتی تھی۔
ویسے بھی کسی باضمیر انسان کے لئے اتنی بھاری جرم کرنے کے بعد پندرہ بیس سال روپوشی کی حالت میں رہنا بہت دل جگر کا کام ہے خصوصا کسی جاپانی کے لیے کیونکہ یہ بہت حساس قوم ہیں اور کوئی جرم غلطی سے کر بھی بیٹھے تو اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے میں دیر نہیں کرتے مگر مقتول کے لواحقین کے لیے وہ وقت بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب تک کے قاتل گرفتار نہ ہو جائے اور اسے اس جرم کی سزا نہ مل جائے کیونکہ کسی کا بھی پیارا قتل ہو جائے تو وہی اس تکلیف اور دکھ کا اندازہ کر سکتا ہے اسی وجہ سے جاپان میں اس قسم کے قوانین کی بہت مخالفت کی گئی اور چند سال بعد ان قوانین کو ختم کردیا گیا۔
جب ماہرین قوانین سے ایسے بھونڈے قوانین بنانے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا جواب تھا کہ کسی قتل کی واردات میں طویل مدت کے دوران ملوث ملزم سے متعلق واقعات و شواہد اور ثبوت کی حیثیت ماند پڑ جاتی ہے اس لیے اگر پچیس سال کے بعد کوئی ملزم گرفتار ہو بھی جائے تو ناقص شواہد اور ثبوت کی روشنی میں درست فیصلہ ناممکن ہو جاتا ہے کیونکہ جس وقت یہ قانون بنایا گیا تھا آج کی طرح جدید سہولیات دستیاب نہ تھی آج کے دور میں کسی بھی انسان کے ڈی این اے کے ذریعے طویل مدت تک معلومات محفوظ کی جا سکتی ہیں۔
اس قانون سے جاپان میں بہت سے خاندان متاثر ہوئی ہے لیکن اب اس قانون کو ختم کر دیا گیا ہے یہ تحریر صرف اور صرف جرنل نالج کے لئے ہے اس کا اور کوئی مقصد نہیں۔