vBirdy Logo
vBirdy Logo

Urdu is ‎our ‎proud ‎|زبان ‏کی ‏غلامی ‏تعلیم ‏انگریزی ‏میں ‏یا ‏اردو ‏میں ‏ہونی ‏‏‏چاہیے۔

اردو زبان ہماری قومی زبان ہے یہ ہماری قومی شناخت ہے اور زندہ قومیں ہمیشہ اپنی زبان تہذیب اور تمدن کو قائم رکھتی ہیں ہماری تہذیب اللہ کی وحدانیت اور اللہ ہی کی حکمت پر استوار ہے یہی ہمارا رہتی دنیا تک سرمایہ حیات ہے زبان بولنے کے ساتھ ساتھ وراثت اور ثقافت کی بھی امین ہوتی ہے ایک زبان صرف بولنے کا اظہار نہیں ہونا بلکہ ہماری تہذیب اور طرز عمل کی آئینہ دور ہوتی ہے۔

دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنا علم اپنی تہذیب اپنے آنے والی نسل تک اپنی زبان میں پہنچاتی ہیں دنیا میں بہت سے معاشروں نے جنم لیا ہے ہر معاشرے کی اپنی پہچان اور تہذیب ہے اس کی وجہ سے دنیا میں بہت سے بولنے اور رہن سہن کے طریقے بدل گئے ہیں اس کی وجہ سے لباس میں تبدیلی آگئی ہیں ترقی پذیر ممالک کے لوگ اپنی روایات اور زبان کو چھوڑ کر ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کی نقل کرنا شروع ہو گئے ہیں جہاں پر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا پسند کرتے جب مشینوں نے جگہ لے تو وہی لوگ نکمے اور ناکارہ ہوگئے۔
اردو ادب میں اب صرف عشق محبت کی بات ہو رہی ہے لیکن ہر دور میں روایت کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ لوگ ضرور ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اقبال کے کلام آج بھی ہماری تہذیب میں زندہ ہے ثقافت اور روایات تو ہماری جسم میں خون کی طرح شامل ہے اگر کوئی معاشرہ اپنی زبان اور تہذیب کو چھوڑ کر کسی دوسرے جیسا بننا چاہے تو یہ بات غلط نہ ہو گی کہ وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے ہماری زندگی میں جب تک ہم اپنے وراثت کو گلے لگائے رکھتے ہیں تو ہماری زندگی کسی حثیت سے کم نہیں ہوتی اگر اردو زبان کو زندگی کے تمام شعبوں میں عمل پیرا کروایا جائے تو معاشرے میں موجود تمام اعتراضات اور اختلاف خود ہی مر جائیں گے اگر ادب مقامی سطح پر اپنا پیٹ بھرتا ہے تو اپنی زبان کو بچانے کے لیے مصنوعی طریقوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہے بہث بڑے بڑے معاشروں کے عروج و زوال کی داستانیں دنیا میں بھری پڑی ہیں اور دنیا کو دکھانے کے لئے آج بھی عبرت کے نشانات موجود ہیں
تاریخ کے مورخین نے یہ نچوڑ نکالا ہے کہ جو زبان معاشرے کا ساتھ نہ دے تو وہ معاشرہ اپنی خودداری بھی قائم نہیں رکھ سکتا اسلامی مفکرین سے لے کر غیرمذہب مفکرین نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگر زبان معاشرے کی ضروریات پوری نہ کرسکے تو وہ خود ہی مر جاتی ہے ہر دور کو زندہ اس کے اجداد سے وراثت سے ملنے والا علم نہیں رکھتا ہے یہ وہ واضح ہے کہ ہر دور میں انسان کو ترقی کے لیے علم کا سہارا لینا پڑتا ہے اور علم ہی ہے جو انسان کو وحشیوں سے مختلف بناتا ہے لیکن اگر علم ایسی زبان میں ہے جو آپ کو سمجھ میں نہیں آتی تو وہ علم کی کتابیں صرف آگ لگانے کے لیے ہی کام آتی ہیں۔
اردو زبان جو کہ 22 کروڑ عوام کی زبان ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ عرصہ انگریزوں نے زیر مسلط رہنے سے ہم اپنی زبان اور لباس کو ان کے معاشرے سے کم تر سمجھنے لگے ہیں حالانکہ سو یا ڈیڑھ سو سال حکومت کرنے سے کوئی ہم سے بہترین نہیں ہوجاتا ہم نے ہزاروں صدیوں حکومت کی لیکن ان کی ترقی کا راز اپنی زبان اور تہذیب پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا وہ ہمارے اجادات تھے جو خود اور دوسروں کے سامنے جھکنے کے بجائے مرنے کو فوقیت دیتے جبکہ ہمارے پیچھے رہنے کی وجہ ہماری زبان سے دوری اور لالچ ہے کسی دور میں عربی زبان کی الگ ہی شان و شوکت تھی دنیا میں علم کے لحاظ سے سب سے بڑی زبان تھی یونان کے فلسفے عربی زبان ہی کی بدولت پوری دنیا میں پھیلے لیکن موجودہ دور میں یہ تمام کارنامے انگریزی نے اپنے نام کرلیے ۔
اپنی زبان کو عروج دلوانے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں ایک علم اس ملک میں اس کی اپنی زبان میں ہونا چاہیے تاکہ ہر ایک کو اسے سمجھنے میں پریشانی نہ ہو چاہے کوئی پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو کیوں کہ قومی زبان اور مادری زبان ہم اپنے بچوں کو سکھاتے نہیں بلکہ وہ خود ہی بولنا شروع کر دیتے ہیں اور دوسرا طریقہ جو زبان زندہ ہوتی ہے تو چاہے علم کسی بھی زبان میں وہ وہاں سے اپنے اندر سمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے پچھلے دور میں فارسی کے بہت بڑے بڑے فلسفے عربی زبان ہی کی وجہ سے لوگ ان کو پہچان سکے جب عربیوں نے اپنی زبان کو چھوڑ کر انگریزی کا سہارا لیا تاکہ وہ دنیا کے ساتھ چل سکے تو عربی زبان میں موجود علم جو کہ کئی صدیوں سے راج کر رہا تھا اب ناپید ہو گیا ہے۔
آج دنیا کی ترقی کا دارومدار سانئس کے ساتھ ہے اور بدقسمتی سے یہ علم اپنی نسل تک اردو کے بجائے انگریزی میں پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں پاکستان میں 10 سے 15 فیصد لوگ ہی ہوں گے جو انگریزوں کو پورا سمجھتے ہیں لیکن باقی سب لوگ اپنی قومی اور مادری زبان پر ہی دسترست رکھتے ہیں ہم تو اپنے ملک کی معاشرت اور قانون بھی اپنی نسل کو اردو میں نہیں پڑھا سکتے حالانکہ ہمارے دستور میں موجود ہماری قومی زبان اردو ہے یہ بھی انگریزی میں درج ہے ہمارے معاشرے میں قانون کی لاعلمی بھی اپنی زبان میں نہ ہونے کی وجہ سے ہے اس سب میں زبان کی کوئی غلطی نہیں بلکہ ہم اس معاشرے کے پیچھے چلنے کی کوشش کرنے لگے ہیں جو خود اس وجہ سے کامیاب ہوا ہے کہ اس نے اپنی زبان کو کبھی نہیں چھوڑا اگر ہم پچھلی صدی یعنی 19 صدی کی بات کریں تو اردو زبان نے اپنے اندر سائنس کو پورے طور پر جذب کر لیا تھا۔
برصغیر میں ایک ایسا میڈیکل کالج تھا جو تمام سائنس کا علم اردو زبان میں پڑھاتا تھا یہ سب کچھ اپنے آپ نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے دن رات کی محنت تھی اگر انسان کسی چیز کا عزم کرے تو اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی اقبال غالب میر تقی میر جیسے دوسرے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کا دور تھا جنھوں نے اردو زبان کو ایک نئے مقام پر پہنچایا تھا لیکن ہم اقبال اور غالب کے بھی وارث نہ بن سکے ہم نے علوم کو اپنی زبان میں ترجمہ کرنے کے بجائے اس زبان میں پڑھنا بہتر سمجھا جو نہ ہی ہمیں پوری سمجھ آتی ہے اور نہ ہی ہماری آنے والی نسلوں کو سمجھ میں آئے گی قائد اعظم نے کہا کہ ہماری قومی زبان اردو ہے جب کہ ہم نے اس کو بھی انگریزی میں ہی مختلف جگہوں پر لکھ رکھا ہے ہم اس وقت تک خردار اور ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکتے جب تک ہم اپنے بچوں کو ہر تعلیم زبان میں مہیا نہ کریں جو ان کو سمجھ میں آتی ہے جسے تو خود بھی سمجھنا چاہے تو ان کو اس زبان میں پڑھنے کے لئے کسی استاد کی ضرورت نہ ہو

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top